بی بی سی نے اس افسوسناک واقعہ پر تفصیلی رپورٹ

[10/02, : پشاور (ویب ڈٰسک) بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ۔۔۔دنیا کی دوسری زیادہ سب سے بلند چوٹی K-2 3کو سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے تین کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پاک آرمی کے دو ہیلی کاپٹروں پر مشتمل ریسکیو کا کام اتوار کو دوسرے روز بھی ناکام لوٹا ہے۔
[10/02, 13:12]  ادھر ان کوہ پیماؤں میں شامل پاکستانی مہم جو محمد علی سدپارہ اور انکے بیٹے ساجد سدپارہ نے کہا ہے کہ ان کے والد اور ساتھی کوہ پیماؤں کو جو بھی حادثہ پیش آیا تھا وہ چوٹی سر کرنے کے بعد ہی ہوا اور یہ کہ ان کی تلاش اور بچاؤ کی مہم کو اب ان کی میتوں کی تلاش کی مہم کے طور پر جاری رکھنا چاہیے۔واضح رہے کہ ساجد سدپارہ بھی اپنے والد کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں شامل تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے باعث وہ مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آ گئے تھے۔پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جوان پابلو موہر کا جمعہ کی شام سے بیس کیمپ، اپنی ٹیم اور اہل خانہ سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا اور ان کی تلاش میں اتوار کو دوسری مرتبہ ریسکیو مشن کا آغاز کیا گیا، جس کے دوران آرمی ہیلی کاپٹروں نے K-2 پر 7800 میٹر کی بلندی تک پرواز کی تاہم تینوں کوہ پیماؤں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔اتوار کو سکردو پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ساجد سدپارہ نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ محمد علی سد پارہ اور ان کی ٹیم نے سردیوں میں K-2 فتح کرنے کا کارنامہ انجام دے دیا تھا اور ان کے ساتھ جو بھی حادثہ ہوا، وہ واپسی کے سفر میں ہوا ہے۔‘ساجد سدپارہ نے یہ بھی کہا کہ ’انتہائی سرد موسم کے ساتھ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر کسی انسان کے اتنے زیادہ وقت تک بچ جانے کے
[10/02, 13:12]: امکانات کم ہی ہیں تاہم میتوں کی تلاش کے لیے ریسکیو کا کام جاری رہنا چاہیے۔‘کوہ پیمائی کی گائیڈ کمپنی سیون سمٹ ٹریکس کے مینیجر داوا شرپا جو کے ٹو بیس کیمپ پر موجود ہیں، نے اپنے فیس بک پر لکھا ہے کہ آرمی کے ہیلی کاپٹروں نے (جس میں وہ خود اور علی سدپارہ کے بیٹے ساجد بھی سوار تھے) اتوار کو تقریباً سات  ہزار آٹھ سو میٹر کی بلندی تک پرواز کی تاہم انھیں تینوں کوہ پیماؤں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔داوا شرپا کے مطابق انھوں نے ابروزی اور دوسرے تمام روٹس کا جائزہ لیا، کیمپ فور کے بعد انھیں دیکھنے میں مشکلات آئیں کیونکہ 6400 میٹر پر ہوا کی رفتار 40 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔محمد علی سد پارہ اور ساجد علی پارہ باپ بیٹا ہیں جن کا تعلق گلگت بلتستان میں سکردو کے علاقے سد پارہ سے ہے۔ سد پارہ کا علاقہ مہم جوؤں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔محمد علی سد پارہ کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جنھوں نے 2016 میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی مرتبہ نانگا پربت کو سر کیا تھا۔محمد علی سد پارہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کی ہیں۔ان کے بیٹے ساجد علی سد پارہ کو کے ٹو اور ماوئنٹ ایورسٹ فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ساجد علی سد پارہ نے کوہ پیمائی کی تربیت اپنے والد ہی سے حاصل کی ہے۔(بشکریہ : بی بی سی )

Comments

Popular post

نظر ٹیسٹ

General knowledge nts questions